حسینہ واجد نے بھارت روانگی سے قبل استعفیٰ نہیں دیا، بیٹے کا انکشاف
واشنگٹن: بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے بیٹے اور ان کے مشیر سجیب وازید نے کہا ہے کہ ان کی والدہ نے حکومت مخالف احتجاج اور ان کی سرکاری رہائش گاہ کی طرف مارچ کے پیش نظر وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ بھارت روانگی سے قبل نہیں دیا۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں موجود شیخ حسینہ واجد کے بیٹے سجیب وازید نے بتایا کہ میری والدہ باقاعدہ استعفیٰ نہیں دیا اور انہیں اتنا وقت نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ میری والدہ نے ایک بیان دینے اور اپنا استعفیٰ پیش کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن پھر مظاہرین نے وزیراعظم کی رہائش گاہ کی طرف مارچ شروع کیا اور وقت نہیں بچا تھا، میری والدہ نے سامان بھی نہیں اٹھایا۔
سجیب وازید نے دعویٰ کیا کہ آئین کے تحت اس وقت بھی وہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گوکہ صدر نے مسلح افواج کے سربراہان اور حزب اختلاف کے سیاست دانوں سے مشاورت کے بعد پارلیمنٹ تحلیل کردی ہے اور وزیراعظم کے بغیر نگران حکومت تشکیل دی گئی ہے کیونکہ درحقیقت باقاعدہ استعفے کا معاملہ عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں طلبہ کا پھر احتجاج، چیف جسٹس، گورنر مرکزی بینک مستعفی
انہوں نے کہا کہ شیخ حسینہ کی عوامی لیگ اگلے انتخابات میں حصہ لے گی اور انتخابات 3 ماہ کے اندر ہونے چاہئیں اور مجھے اعتماد ہے کہ عوامی لیگ دوبارہ اقتدار میں آئے گی، اگر ایسا نہیں ہوا تو ہم اپوزیشن کریں گے اور کسی بھی پوزیشن میں بہتر ہوگا۔
حسینہ واجد کے بیٹے نے کہا کہ اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ خالدہ ضیا کے حالیہ بیان سے حوصلہ ملا ہے کہ بدلہ نہیں لیا جائے گا یا شیخ حسینہ واجد کے بھارت جانے کے بعد کوئی انتقام لیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے خالدہ ضیا کا بیان پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ جو ہوا وہ ماضی کا حصہ بن گیا ہے، ماضی کو بھول جائیے اور ہمیں سیاسی انتقام جاری نہیں رکھنا چاہیے، ہم ایک ساتھ کام کرنے جا رہے ہیں چاہے یہ متحدہ حکومت کے طور پر ہو یا اس کے علاوہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ بی این پی کے ساتھ کام کرنے کا خواہاں ہے تاکہ بنگلہ دیش میں جمہوری انتخابات ہوں اور جمہوریت بحال ہو اور آگے بڑھنے کے لیے مل کام کرنے کو یقینی بنائیں گے، ہماری جمہوریت پرامن ہے جہاں شفاف اور غیرجانب دار انتخابات ہوں گے۔
سجیب نے کہا کہ میری نظر میں سیاست اور مذاکرات بہت اہمیت رکھتے ہیں، ہم دلائل دے سکتے ہیں، ہم اتفاق یا اختلاف کرسکتے ہیں اور ہم ہمیشہ کوئی مفاہمت کرسکتے ہیں۔
عوامی لیگ کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس مدت کے بعد میری والدہ سیاست سے کنارہ کش ہو رہی تھی اور اگر پارٹی مجھے امیدوار بنانا چاہتی ہے تو ہوسکتا ہے اور میں بالکل اس پر توجہ دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ میری والدہ ملک میں واپس آکر ٹرائل کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے جس کا طلبہ نے مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میری والدہ گرفتاری سے خوف زدہ نہیں ہیں، میری والدہ نے کچھ غلط نہیں کیا، ان کی حکومت میں شامل لوگوں نے غیرقانونی کام کیا تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میری والدہ نے اس کے احکامات دیے تھے اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ میری والدہ اس کی ذمہ دار ہیں تاہم انہوں نے احتجاج کے دوران فائرنگ کے احکامات دینے والے حکومتی رکن کا نام نہیں دیا۔
خیال رہے کہ شیخ حسینہ واجد رواں ہفتے طلبہ تحریک کے احتجاج کے باعث استعفیٰ دے کر بھارت روانہ ہوگئی تھی اور اس کے بعد آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے عبوری حکومت کا اعلان کیا تھا اور نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت نے انتظام سنبھال لیا ہے۔
طلبہ تحریک کے دوران بنگلہ دیش میں 300 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں اکثریت طلبہ کی ہے تاہم اس تحریک نے حسینہ واجد کی 15 سالہ حکومت کا خاتمہ کردیا۔