انتخابی دنگل ختم؛ سیاسی اور مالی بحران کے شکار سری لنکا کا صدر کون ؟
کولمبو: سری لنکا میں ہونے والے صدراتی الیکشن میں اب تک کی ووٹوں کی گنتی میں مارکسی رہنما 55 سالہ انورا کمارا ڈسانایاکا کے صدر بننے کے امکانات روشن ہوگئے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سری لنکا کے صدارتی الیکشن میں مارکسٹ رہنما انورا کمارا ڈسانایا کو 52 فیصد، اپوزیشن لیڈر ساجیت پریماداسا کو 23 اور موجودہ صدر رانیل وکرما سنگھے کو 16 فیصد ووٹس ملے۔
غیرسرکاری اور غیر حتمی نتائج میں نیشنل پیپلز پاور کے انورا کمارا کو فاتح قرار دیا گیا ہے۔ الیکشن میں ایک ملین ووٹرز نے رائے شماری میں حصہ لیا تھا اور 52 فیصد نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔
صدر رانیل وکرما سنگھے نے ابھی تک نتائج کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن وزیر خارجہ علی صابری کے بقول ابتدائی گنتی میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ انورا کمارا ڈسانایاکا جیت گئے۔
انورا کمارا ڈسانایاکا کی مارکسٹ پارٹی نے 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں دو ناکام بغاوتوں کی قیادت کی تھی جس میں 80 ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
رانیل وکرما سنگھے نے 2 سال قبل اس وقت حکومت سنبھالی تھی جب ملک ڈیفالٹ کرگیا تھا۔ عوام نے صدارتی محل اور پارلیمان پر دھاوا بول دیا تھا اور حکمراں ملک سے بھاگ گئے تھے۔
رانیل وکرما سنگھے نے آئی ایم ایف کا 2.9 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام حاصل کرنے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ کیا اور خوراک، ایندھن اور ادویات کی قلت کو ختم کیا۔
علاوہ ازیں انھوں نے سخت معشی اقدامات کو جاری رکھنے کے لیے دوبارہ انتخاب کے مطالبے کو تسلیم کیا۔
سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سری لنکا کی غربت کی شرح 2021 اور 2022 کے درمیان دوگنی ہو کر 25 فیصد ہو گئی، جس سے 2.5 ملین سے زیادہ افراد کا اضافہ ہوا جو پہلے سے ہی 3.65 ڈالر یومیہ سے کم پر زندگی گزار رہے ہیں۔
ہفتے کے روز ہونے والی ووٹنگ کے لیے ہزاروں پولیس کو تعینات کیا گیا حکومت نے شراب کی فروخت پر بھی پابندی اور پولنگ بند ہونے کے بعد رات کے وقت کے کرفیو کو اتوار کی شام تک بڑھا دیا گیا۔
علاوہ ازیں حتمی نتائج کے اعلان کے ایک ہفتے بعد تک کسی فتح کے جلسے یا جشن کی اجازت نہیں ہوگی۔