پاکستان

الیکشن چوری کا سلسلہ جاری رکھنے کیلیے 26ویں آئینی ترمیم لائی گئی، شاہد خاقان

سابق وزیر اعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ الیکشن چوری کرنے کا سلسلہ جاری رکھنے کی وجہ سے 26ویں آئینی ترمیم لائی گئی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کہا بار ایسوسی ایشن میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں فل کورٹ اجلاس میں ریفارم کی بات کی گئی۔ 50 فیصد سینیٹر پیسے دے کر آئے ہیں۔ کوئی بھی جج آئے احتساب کے نظام سے گزر کر آنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے مسائل کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں یہاں ہر شخص پریشان ہے۔ الیکشن چوری کرنے کا سلسلہ جاری ہے جسکی وجہ سے یہ آئینی ترمیم سامنے آئی ہے۔ اس تبدیلی کے پیچھے بہت سے لوگوں کے مفاد چھپے ہیں۔ اس ترمیم کا مقصد صرف ایک آدمی کو چیف جسٹس بننے سے روکنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ سپریم کورٹ میں ہیں ان کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم جو مستقل معاملہ ہوتا ہے کہ اسے بس بغیر دیکھے پاس کردیا گیا ہے، مجھے اس ترمیم کے بہت ساری باتوں سے اختلاف رہا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ پارلیمان آئین کے ڈھانچے کو بدل دے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس ترمیم نے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک کمیٹی ہوگی جو یہ فیصلہ کرے گی کہ کون جج بن سکتا ہے یا نہیں۔ عدلیہ نے یہاں اس معاملے کو خراب کیا ہے۔ عدلیہ ملک کی سیاست میں اسٹیک ہولڈر بن گئی تھی۔ قاضی فائز عیسیٰ پر جب پچھلی حکومت نے حملہ کیا اس وقت انکے ساتھ کھڑے تھے۔ اسی قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے بعد بننے والے چیف جسٹس کے راستے میں رکاوٹ بن گئے۔ ہمارے سیاسی نظام میں خرابیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کاہ کہ آئین حکومت اور عوام کا وعدہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں تیز ترین ترمیم بھی اس بار دیکھی گئی ہے۔ عوام کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔ کیا پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اس آئینی ترمیم کے ذریعہ حل کیا گیا ہے، یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ اس طرح سے اس ملک کو چلایا جارہا ہے۔ یہ لوگ یہاں عدل کے نظام کو دبانے کے لئیے بیٹھے ہیں۔ اس دور میں انٹرنیٹ بند یا پھر آہستہ کرکے چلایا جارہا ہے۔ اگر اتنے مسائل حکومت کو ہیں تو پھر حکمران استعفیٰ دے کر چلے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کا اسپیکر یہ کہہ رہا ہے کہ میں سپریم کورٹ کا حکم نہیں مانتا، اب بھی وقت ہے خرابی کو درست کریں، چیک اینڈ بیلنس کا نظام ختم کر دیا گیا ہے۔ سابق وزیراعظم  نے کہا کہ کمیٹی ججز کا انتخاب کرے گی وہی کمیٹی کارکردگی کا جائزہ لے گی۔ اگر ترمیم پر مشاورت کرلیتے تو کونسی قیامت آجاتی۔ دنیا کی تیز ترین ترمیم پاکستان میں ہوئی ہے۔ کیا عوام کا سب سے بڑا مسئلہ آئینی ترمیم تھی؟ عوام کو تو پتہ ہی نہیں تھا ترمیم کیا ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا شکریہ انہوں نے بڑی خرابی سے بچا لیا۔ یقین ہے آگے مزید ترمیم آئے گی۔ انھوں نے کہا ہمارا دور حکومت آج سے بہتر تھا۔ ملک کی سب سے بڑی ضرورت اصلاحات ہیں۔

بار سے خطاب کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ یہ حکومت مشکوک مینڈیٹ کی وجہ سے یہاں بیٹھی ہوئی ہے۔ پاکستان کے عوام سے انکا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے۔ 2018 میں بھی مینڈیٹ چوری کیا گیا اس وقت لاڈلہ کوئی اور تھا۔ پاکستان کی عوام کا فیصلہ ہونا چاہیے کہ کون حکومت میں بیٹھے گا۔

انہوں نے کہا کہ انصاف کے اچھا ہونے کے حوالے سے اس آئینی ترمیم میں کوئی بات نہیں کی گئی۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ معیشت میں بھی اس حکومت نے کوئی ریفارمز نہیں کئے کہ کوئی بہتری آسکتی۔ جس طرح ٹیکس کے ریفارمز ہونے چاہیے تھے اس طرح سے وہ بھی نہیں کئے گئے۔ تنخواہ دار بھی ٹیکس کا بوجھ ڈالا گیا اور سرمایہ داروں کو اربوں روپے کی سبسڈی دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کسی اور کو نہیں کرنا چاہئے پارلیمان میں کون بیٹھے گا، پارلیمان کو عوام چنتی ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم سے پہلے انہوں نے کہا تھا انصاف سستا ہوجائیگا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ عوام سے چھپایا گیا، چھپ کر بل پاس ہوا۔

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ معیشت کے بارے میں بات کی جائے کوئی ایسی ریفارمز نہیں کی گئی جس سے عوام کا بھلا ہو۔ 50 ہزار کی تنخواہ دار پر انکم ٹیکس لگادیا لیکن ذمیندار پر کوئی ٹیکس نہیں۔ 75 ہزار پر تنخواہ کے ٹیکس بڑھا دیا گیا۔

’پاکستان میں گرمی زیادہ ہوتی ہے تو بجلی چلی جاتی ہے اور سردی آتی ہے تو پھر گیس چلی جاتی ہے۔ کراچی جیسے شہر میں پانی بھی میسر نہیں ہے خرید خرید کر پانی پینا پڑتا ہے۔ اگر ہمارا ٹیکس بڑھایا گیا ہے تو پھر حکومت قربانی دیتے ہوئے کیوں نظر نہیں آتی‘۔

انہوں نے کہا کہ آج کہا جاتا ہے کہ مہنگائی کم ہوئی ہے ایسا نہیں ہوا بلکہ مہنگائی کی رفتار کچھ کم ہوگئی ہے۔ اس حکومت نے کوئی ایسی قانون سازی کی ہے جس سے عام عوام کو کوئی فائدہ ہوتا۔

صدر کراچی بار ایسوسی ایشن عامر نواز وڑائچ نے خطاب میں کہا کہ کراچی بار نے آل پاکستان کنوینشن کیا تھا چھبیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے۔ اس آئینی ترمیم کے حوالے سے جو بھی ہمارے خدشات تھے اس تقریب میں بتا دئیے گئے تھے پھر بھی یہ ترمیم کی گئی۔ اس ترمیم میں جو تبدیلیاں کی گئی اس کے مستقبل میں بہت خراب نتائج ہونے والے ہیں۔ جب سیاسی لوگ ججز کی تعیناتی کریں تو شفافیت کیسے آ سکے گی۔

عامر نواز وڑائچ نے کہا کہ اگر ایسا ہوگا تو پھر ابھی سے ججز سیاسی لوگوں کو فیور دینا شروع کردیں گے۔ ریفارمز ہونا بھی ضروری ہیں لیکن جس طرح سے ترمیم کی گئی وہ غلط ہے۔ ہم اس بات کے بھی خلاف تھے جب قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ سے نکالا جارہا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button