پاکستان

پچھلے چند ادوار میں عدالتی ایکٹوزم نے پارلیمنٹ کے حقوق کو سلب کیا، اسپیکر پنجاب اسمبلی

لاہور: اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ پچھلے چند ادوار میں عدالتی ایکٹوزم نے پارلیمنٹ کے حقوق کو سلب کیا جو آئین کے ساتھ فراڈ کے مترادف ہے۔

پنجاب اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ بنیادی سوال چند دنوں سے اسمبلی خط کو لے کر سامنے آ رہا ہے،
سپریم کورٹ کا فیصلہ اور دو اسمبلیوں کا خط الیکشن کمیشن کو جو لکھا وہ زیر بحث ہے، قومی اسمبلی میں جو ترمیم پاس کی گئی وہ بھی زیر بحث ہے، جب ایکٹ پاس نہیں ہوا تو سپریم کورٹ کے آرڈر نے پی ٹی آئی کو حق دیا کہ جو پہلے الیکشن کے متعلقہ قوانین ہیں جس سے سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن ریگولیٹ کرتی ہیں ان قوانین کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا تھا۔

ملک احمد خان نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ گیا پھر الیکشن کمیشن کا فیصلہ آیا، کسی پارٹی پوزیشن پر جائے بغیر کہوں گا کہ الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کا مقدمہ زیر سماعت تھا بابر ایس اکبر عدالت میں مقدمہ تین سال تک ٹھہرایا گیا کیا مقصد حاصل کرنا تھا؟

انہوں نے کہا کہ پچھلے چند ادوار میں عدالتی ایکٹوزم نے پارلیمنٹ کے حقوق کو سلب کیا جو آئین کے ساتھ فراڈ کے مترادف ہے،  بنیادی ڈھانچہ کی آڑ میں ستم ڈھایا گیا، ججوں کی تعیناتی اور انہیں برطرف کرنے کا معاملہ کون کرے گا تو عدالتوں نے یہ فیصلہ خود ہی اپنے پاس رکھ لیا، سپریم جوڈیشل کونسل میں اگر کوئی فیصلہ گیا تو نہ اس کی کوئی کارکردگی نہ کسی ایگزیکٹو کا کردار ہوگا۔

ملک محمد احمد خان نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن ارکان مولانا فضل الرحمن سے بھی اپیل کروں گا آپ نے حلف آئین کے تحفظ کا لیا ہے اس کی بنیادی چیزوں کو درست کر لیں، پارلیمانی سپرمیسی میں اگر کوئی پارلیمنٹ کا حق چھینے گا تو جو ہم کہتے ہیں وہ سب کچھ کریں، آئین میں دئیے گئے حقوق جو پارلیمنٹ نے جو دئیے اس پر عمل درآمد کروانا ہے۔

اسپیکر نے کہا کہ پارلیمنٹ ہو الیکشن کمیشن ہو یا سپریم کورٹ ہو جس نے جو کام کرنا ہے آئین میں درج ہے، وزیر اعلی مریم نواز نے پہلی تقریر میں پارلیمنٹ ایگزیکٹو کردار خواتین کے حقوق کے کردار کا روڈ میپ دیا، پرویز الٰہی دور میں ہم جھگڑا کرتے رہے کہ اپنے قانون پر عمل درآمد نہیں ہو رہے پارلیمنٹ کے کردار کو فراموش کیا جارہا ہے، ججوں کی تعیناتی اور انہیں برطرف کرنے کا معاملہ کون کرے گا تو عدالتوں نے یہ فیصلہ خود ہی اپنے پاس رکھ لیا، سپریم جوڈیشل کونسل میں اگر کوئی فیصلہ گیا تو نہ اس کی کوئی کارکردگی نہ کسی ایگزیکٹو کا کردار ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ منتخب لوگ جو آئینی ذمہ داری ادا نہیں کرتے مصلحتوں کا شکار ہوتے ہیں ذمہ داری سے بھاگتے ہیں اس دوڑ میں سب نے حصہ ڈالا، اگر ہم پارلیمانی لوگ کردار ادا نہ کریں گے تو نیب جیسا ادارہ آکر کہے گا کہ آپ اپنی سے کچھ نہیں کرسکتے،  میرے سامنے نیب کا ایکٹ آیا جس میں کہا گیا کہ اتنی رقم سے زیادہ آپ خرچ نہیں کر سکتے، بعض اوقات دیوار سے سر پیٹتنے کا دل چاہتا ہے آئین و قانون کو مضبوط کریں وگرنہ ہمارے پاس اختیار نہیں رہے گا کہ نہ ایک لفظ بھی قانون میں نہ لکھ سکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹو کسی طاقتور ادارے کے ساتھ بات نہ کر سکےگا، رولز آف پروسیجرز جس میں شکریہ ادا کیا وزیر اعلی اپوزیشن نے بھی محنت کے ساتھ اٹھارہویں ترمیم کے بعد قانون نقصان سے بچا سکتی ہے وہ بات کی ، قانونی بحران سے عوامی خدمت کے راستے میں رکاوٹ کھڑی ہو جاتی ہے، وویمن کاکس اور اقلیت کاکس کی تشکیل کی وہ طبقات جن کی آواز سنی جائے، کوشش کررہے ہیں عوام سے رابطہ بڑھائیں پبلک پٹیشن کا میکانزم بنا رہے ہیں سکیورٹی خدشات کی وجہ سے رابطہ منقطع ہوا اسے بحال کریں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button