امریکہ

’حراستی کیمپوں میں تشدد‘، اویغور امریکی قانون سازوں کی توجہ کا مرکز

سنکیانگ کی دو خواتین جنہوں نے اویغوروں کے لیے چین کے ’ری ایجوکیشن‘ کیمپوں میں زندگی کا کچھ حصہ گزارا، نے امریکی قانون سازوں کو قید، نگرانی، عصمت دری اور تشدد کے بارے میں بتایا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی ایوانِ نمائندگان کی چین کے حوالے سے قائم ایک خصوصی کمیٹی وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
مزید پڑھیں

فرانس نے چین کا اویغوروں کے ساتھ سلوک ’نسل کشی‘ قرار دے دیا

چین نے اویغور مسلمانوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی: اقوام متحدہ کی رپورٹ

چین نے سپائی ویئر سے اویغور مسلمانوں کی ایپس کو نشانہ بنایا: رپورٹ
چین کی نسلی ازبک اقلیت سے تعلق رکھنے والی قلبینور صدیق، جنہیں ایغور مردوں اور عورتوں کے لیے بنائے گئے الگ الگ حراستی مراکز میں چینی زبان سکھانے پر مجبور کیا گیا تھا، نے کمیٹی کو بتایا کہ مرد اویغور قیدیوں کو زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا جاتا ہے اور جب حکام انہیں طلب کرتے ہیں تو ان کو رینگنا پڑتا ہے۔ ’انہیں پوچھ گچھ کے لیے نمبروں کے ذریعے بلایا گیا تھا۔ اور پھر آپ کو تشدد سے چیخنے کی خوفناک آوازیں سنائی دیتی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ خواتین ایغور قیدیوں کو سرمئی یونیفارم میں پہنایا گیا اور ان کے سر منڈوائے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ گارڈز نے خواتین کو بجلی کے جھٹکے دیتے تھے اور اجتماعی عصمت دری کی جاتی تھی اور  بعض اوقات دونوں طرح کا تشدد کیا جاتا۔ ’میں نے ایک 18 سے 20 سال کی لڑکی کو دیکھا ہے جس کا دوران علاج خون بہہ رہا تھا۔‘
چین کے ان کیمپوں میں دو برس سے زائد قید کاٹنے والی ایک اور اویغور خاتون گلبہار ہیتیواجی نے کمیٹی کو بتایا کہ ’دوبارہ تعلیم کے کیمپوں کا مقصد اویغور قیدیوں کو ان کی زبان، مذہبی عقائد اور رسوم و رواج سے محروم کرنا ہے، مردوں اور عورتوں کو ’روزانہ کی بنیاد پر 11 گھنٹے برین واشنگ اسباق‘ پڑھنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔‘
ان کیمپوں میں گزرے وقت کے بارے میں بتاتے ہوئے ہیتیواجی نے کہا کہ ’کھانے سے پہلے ہمیں ان کی تعریف کرنا ہوتی، کہنا ہوتا کہ ہم شکر گزار ہیں چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اور ہم صدر شی جن پنگ کے شکر گزار ہیں۔ اور کھانا ختم کرنے کے بعد ہمیں دوبارہ ان کی تعریف کرنا ہوتی۔‘
’بدنظمی‘ پھیلانے کے الزام میں گرفتار کی گئی اویغور خاتون نے بتایا کہ اس کو 30 ​​سے ​​40 افراد کے ساتھ ایک سیل میں رکھا گیا جو صرف نو افراد کے لیے بنایا گیا تھا۔ اسے اور دیگر خواتین قیدیوں کو ایک موقع پر 20 دن تک ان کے بستروں میں جکڑے رکھا گیا۔
نظر بندی کے اس عرصے میں خاتون نے ہمت ہار دی مگر 2019 میں وہاں اس کے اہل خانہ کی جانب سے دباؤ کی مہم کی بدولت رہا کر کے فرانس بھیج دیا گیا۔
خاتون کے مطابق رہائی سے قبل چینی حکام نے کھانے کی مقدار بڑھا دی تاکہ اُن کی صحت اور شکل و صورت سے یہ نہ لگے کہ قیدیوں کو برے حالات میں رکھا جاتا ہے۔
ہیتیواجی کے مطابق ’رہا کرتے وقت چینی حکام نے خبردار کیا تھا کہ اگر کیمپ میں گزارے وقت کا احوال باہر بتایا کہ خاندان کو نقصان پہنچے گا۔‘

کیمپ سے رہا ہونے والی اویغور خاتون کے مطابق اُن کو چینی صدر کی تعریف پر مجبور کیا جاتا۔ فوٹو: اے ایف پی

امریکہ اور بہت سی دوسری حکومتیں، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروپ چین پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے اپنی ایغور برادری اور دیگر مسلم نسلی اقلیتی گروہوں کے دس لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں کو حراستی کیمپوں میں رکھا ہوا ہے، جہاں سے نکلنے والے بہت سے لوگوں نے بتایا کہ ان پر تشدد کیا گیا، جنسی زیادتی کی گئی، اور اپنی زبان اور مذہب کو چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے جن کے شواہد کیمپوں کی سیٹلائٹ تصاویر اور رہا کیے جانے والے افراد کے انٹرویوز کی صورت میں موجود ہیں۔
واشنگٹن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان لیو پینگیو کے مطابق ’ایک طویل عرصے سے کچھ امریکی سیاست دانوں نے بار بار سنکیانگ سے متعلقہ مسائل کو افواہوں سے ہوا دینے اور انسانی حقوق کے بہانے سیاسی جوڑ توڑ میں ملوث ہونے کے لیے استعمال کیا ہے، تاکہ چین کے عالمی چہرے کو داغدار کیا جا سکے اور ملکی ترقی کو روکا جا سکے۔‘
ترجمان کے مطابق سنکیانگ میں ’چینی حکومت کی کارروائی ’تشدد، دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کو روکنے کے لیے کی جا رہی ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button