برطانیہ: ’لاک ڈاؤن کے فیصلے میں تاخیر سے ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں‘
ایک پارلیمانی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانوی حکومت نے کورونا وائرس کے شروع کے دنوں میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ بہت دیر سے کیا جس کی وجہ سے نہ صرف بیماری کو کنٹرول کرنے کا موقع ہاتھ سے نکلا بلکہ ہزاروں کی تعداد میں غیرضروری اموات بھی ہوئیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے یہ بات منگل کے روز سامنے آنے والی پارلیمانی رپورٹ کے حوالے سے بتائی ہے۔
ہاؤس آف کامنز سائنس اور ہیلتھ کمیٹیوں کی رپورٹ کے مطابق ’وزرا کی جانب سے کی تباہ کن تاخیر اور سائنسی مشیروں کی تجاویز پر سوال نہ اٹھانے کے نتیجے میں خطرناک ’مجموعی سوچ‘ سامنے آئی اور وہ موثر اور تیز حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی جو کہ مشرقی اور جنوبی مشرقی ایشیا میں اختیار کی گئی تھی۔‘
مزید پڑھیں
ملکہ برطانیہ: ’کورونا وائرس پر قابو پا لیں گے‘
دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے دوران زندگی تصاویر میں
’کورونا کے بعد بالکل فٹ‘ برطانوی وزیراعظم کے ’پریس اپس‘
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب تیزی سے بڑھتے کیسز کے باعث قومی صحت سروس کو خطرات لاحق ہوئے تو وزیراعظم بورس جانسن کی حکومت نے آخرکار لاک ڈاؤن کے احکامات جاری کیے۔
رپورٹ کے مطابق ’اس وقت لاک ڈاؤن سے بچنے کی خواہش موجود تھی اور خیال تھا کہ اس سے معیشت اور معمول کی صحت کی سروسز کو نقصان پہنچے گا۔‘
’سخت تنہائی، موثر ٹیسٹ، بھرپور عملی اقدامات اور سرحدیں بند کیے جانے جیسی حکمت عملی اختیار نہ کیے جانے کی صورت میں ضروری تھا کہ جلد لاک ڈاؤن لگایا جاتا۔‘
برطانیہ کی پارلیمانی رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کورونا پر حکومتی ردعمل کے حوالے سے رسمی پبک انکوائری کے ٹائم ٹیبل پر پہلے سے ہی مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے، جس کے بارے میں بورس جانسن کا کہنا ہے کہ وہ اگلے موسم بہار میں ہوگی۔
اس حوالے سے قانون سازوں نے کہا کہ تحقیقات کا طریقہ کار ایسا ہے جو وبا کے شروع کے دنوں میں دوسرے ممالک کے مقابلے میں حکومت کی ’خراب ترین‘ کارکردگی سامنے لائے اور اس وقت جاری کورونا کے خطرے کے علاوہ مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی تیاری کی جائے۔