کھاتے وقت منہ سے نکلنے والی آوازیں دوسروں کیلیے ذہنی اذیت بن سکتی ہیں
آکسفورڈ: ہم میں سے اکثر افراد ناک سے لی جانے والی سانس، کھانسی اور کھانا کھاتے وقت منہ سے آنی والی آوازوں کا بمشکل ہی مشاہدہ کرتے ہیں۔ لیکن سائنس دانوں کے مطابق یہ آوازیں بہت سے لوگوں کے لیے ذہنی اذیت، غصے اور یہاں تک کے ہول اٹھنے تک کا سبب بن سکتی ہیں۔
مِسوفونیا نامی اس مسئلے (یعنی کھاتے، انگلیاں چٹخاتے،سانس لیتے یا کھانسی کےوقت منہ سے نکلنے والی آوازوں پر ناگواری کا اظہار کرنا) پر کی جانے والی پہلی برطانوی تحقیق کے مطابق ہر پانچ میں ایک فرد (یعنی 20 فی صد) اس مسئلے سے متاثر ہوتا ہے۔
محققین نے مطالعے میں ان شرکاء کی نشاندہی کی جن کی زندگی اس مسئلے کی وجہ سے بوجھل تھی، تاہم صرف شدید نوعیت کے مسئلے میں مبتلا افراد کو اس سے نمٹنے کے لیے کونسلنگ کی ضرورت تھی۔
تحقیق میں ماہرین نے ایک سوالنامے کی مدد سے 772 افراد میں آواز سے ہونے والے ردِ عمل اور اس کی شدت کو جانچا۔
تحقیق میں معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص کو کسی کے معمول کے مطابق سانس لینے اور کھانا کھاتے وقت منہ سے نکلنے والی آواز سے پریشانی ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ممکنہ طور اس کیفیت میں مبتلا ہے، کیوں کہ عمومی طور پر اس سے لوگ پریشان نہیں ہوتے ہیں۔
یونیورسٹی آف آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والے تحقیق کی سینئر مصنفہ ڈاکٹر جین گریگری کا کہنا تھا کہ مِسوفونیا کا تجربہ کسی اذیت سے بڑھ کر ہوتا ہے۔یہ کیفیت انسان کے بے یار و مددگار ہونے کے احساس کا سبب ہوسکتی ہے اور ساتھ ہی لوگوں کو یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ وہ ایک جگہ پھنس گئے ہیں اور اس ناخوشگوار آواز سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مِسوفونیا میں مبتلا اکثر افراد اپنے ردِ عمل پر افسوس بالخصوص اس وقت کرتے ہیں جب یہ ناخوشگوار آوازیں ان کےقریبی افراد سے آتی ہیں۔