مدافعتی نظام میں ایچ آئی وی کی خفیہ جائے پناہ کی موجودگی کا انکشاف
بالٹی مور: محققین نے مدافعتی نظام میں ایک ایسی جائے پناہ کا سراغ لگایا ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے ایچ آئی وی انسان کے جسم میں سالوں تک باقی رہتا ہے۔
ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ جن لوگوں میں اینٹی ریٹرو وائرل تھیراپی کے ذریعے سالوں تک ایچ آئی وی کے وائرس دبائے جاتے ہیں، ان میں مائیلائیڈ (وائٹ بلڈ خلیوں کی ایک قسم) خلیوں میں ایچ آئی وی افزائش پا سکتا ہے۔
نیشنل انسٹیٹیوٹس آف ہیلتھ کی مدد سے کی جانے والی تحقیق میں محققین نے ایک نیا کمیتی طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے یہ بتایا کہ ایچ آئی وی مخصوص مائیلائیڈ میں دوبارہ فعال ہوسکتا ہے اور نئے خلیوں کو متاثر کر سکتا ہے۔
جرنل نیچر مائیکرو بائیولوجی میں شائع ہونے والی تحقیق کے نتائج کے مطابق مائیلائیڈ خلیے ایچ آئی وی مخزن کو اہم لیکن وائرس کو مٹانے کی کوششوں کے لیے غیر واضح ہدف بنا کر اس کی طویل مدتی میں کردار ادا کرتے ہیں۔
جان ہوپکنز یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی تحقیق کی مصنفہ ریبیکا وِینہیئس کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق مروجہ بیانے کے حوالے سے سوال اٹھاتی ہے جس کے مطابق علاج کے لیے اہم مونوسائٹس(وائٹ بلڈ سیلز کی ایک قسم) کی زندگی انتہائی قلیل مدت کی ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہاں ان خلیوں زندگی چھوٹی ہوتی ہے لیکن تحقیق کا ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ وہ لوگ جن میں سالوں تک اس وائرس کو دبایا گیا ہوان میں موجود مونوسائٹس میں ایچ آئی وی باقی رہ سکتا ہے۔ طویل عرصے میں ان خلیوں میں ایچ آئی وی کا تشخیص کیا جا سکنا یہ بتاتا ہے کہ کوئی چیز ایسی ہے جو مائیلائیڈ میں موجود مخزن کو باقی رکھے ہوئے ہے۔
اینٹی ریٹرو وائرل علاج ایچ آئی وی کے علاج میں مؤثر ہوتا ہے کیوں کہ یہ وائرس کو نئے خلیوں کو متاثر کرنے اور تعداد کو بڑھنے سے روکتا ہے۔ تاہم، اس کے باوجود ایچ آئی وی غیر فعال خلیوں میں موجود ہوسکتا ہے اور ایچ آئی وی کا مخزن بنا سکتا ہے۔ سی ڈی 4 ٹی خلیے (ایک قسم کے وائٹ بلڈ سیلز) سب سے بہتر مطالعہ کیے گئے ایچ آئی وی مخزن ہیں۔ ایچ آئی وی کےعلاج کے لیے اس کے مخازن کی شناخت بہت اہم ہے کیوں کہ اگر لوگ اینٹی ریٹرو وائرل علاج کرانا چھوڑ دیں تو غیر فعال ایچ آئی وی دوبارہ فعال ہوسکتے ہیں۔