نشہ، ایک سماجی اور ذہنی عارضہ
نشہ ایک معاشرتی دکھ ہے۔ جس طرح دکھ کو مل جل کر جھیلا جائے تو نہ صرف دکھ کی شدت کم ہو جاتی ہے بلکہ دکھ کے عمل سے گزرنا آسان ہو جاتا ہے۔
اِسی طرح اگر نشے کی بیماری یا نشہ کرنے والے سے نفرت کے بجائے معاشرتی طور پر اس کی حالت کو سمجھنے اور اس سے نکلنے کی کوشش کی جائے تو اس کا حل بھی ممکن اور آسان ہو جائے گا۔
یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ نشہ صرف نشہ کرنے والے کو ہی نقصان پہنچاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نشے کے اثرا ت نہ صرف خاندان بلکہ اِرد گِرد کے لوگوں اور پورے معاشرے پر بھی اُتنے ہی گہرے ہوتے ہیں جتنے کہ ایک نشہ کرنے والے پر۔ نشہ ایک ذہنی عارضہ ہے جس کے جسمانی، نفسیاتی، معاشرتی اور روحانی پہلو ہیں۔
یہ ایک دائمی اور آہستہ آہستہ بڑھنے والا عارضہ ہے جس کے اثرات آہستہ آہستہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیںاور اگر بر وقت علاج نہ کر وایا جائے تومہلک ثابت ہو سکتا ہے۔
نشہ نہ صرف فرد کی زندگی پر تباہ کن اثرات ڈالتا ہے بلکہ نشہ کرنے والے شخص کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر اس کی فیملی ہوتی ہے۔ والدین عمومی طور پر اس بیماری کی وجہ اپنی طرف سے بچوں کی تربیت میں کمی سمجھتے ہیں اور احساسِ جرم کا شکار ہو جاتے ہیں۔
وہ لوگوں سے چھپاتے ہیں اور آہستہ آہستہ لوگوں سے ملنا جلنا ترک کر دیتے ہیں۔ نشہ کرنے والے کی حرکات و سکنات سے گھر کا ماحول ہر وقت گھٹن زدہ رہتا ہے جس کے اثرات گھر کے ہر فرد مثلاً بہن بھائی، میاں/ بیوی یا بچوں پر پڑتے ہیں۔
پڑھائی ہو، ملازمت یا کام کی جگہ وقت پر نہ جانے اور کام وقت پر مکمل نہ کرنے کی صورت میں دوسرے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں اور معاشرے کی مجموعی ترقی کی رفتار بھی سست پڑتی ہے، جس سے وقت اور وسائل کا ضیاع ہوتا ہے۔
اسی طرح غیر قانونی کاموں (چوری، ڈاکہ، جھگڑا، توڑ پھوڑ، منشیات بیچنا، حادثات ، وغیرہ) میں ملوث ہونے کی صورت میں نہ صرف دوسروں کا جانی و ما لی نقصان ہوتا ہے بلکہ معاشرہ افراتفری اور انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔
نشہ استعمال کرنے کی انفرادی وجوہات کے ساتھ ساتھ معاشرتی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ بچپن کے صدمات (جنسی/ جسمانی/ نفسیاتی تشدد) اورغیر فعال خاندانی نظام (طلاق، علیحدگی، غربت، وغیرہ) بھی نشے کی طرف دھکیلنے کی ایک وجہ سمجھی جاتی ہے۔ ان بچوںکا نشے کی طرف رجحان زیادہ ہوتا ہے جن میںبچپن سے ہی عزتِ نفس کی کمی پائی جاتی ہے۔
جہاں منشیات کی عام دستیابی گورنمنٹ اور اداروںکی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ونہی آج کل تعلیمی اداروں خصوصاً یونیورسٹیز میں منشیات کی آسانی سے دستیابی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی لاپرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
جتنی تیزی سے ہماری نوجوان نسل اس مرض میں مبتلا ہو رہی ہیں اتنی ہی اس مسئلے سے غفلت برتی جارہی ہے۔ اینٹی نارکوٹکس فورس کا کام صرف Say No to Drugs تک محدود ہے یا پھر سالانہ کچھ کلوگرام منشیات جلا کر فریضہ ادا کر دیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر نشے کی بیماری کے بارے میں مناسب آگاہی فراہم نہ کرنا اور نشہ کرنے والے افراد سے ہمدردی یا ان کا علاج کرنے کے بجائے انہیں نفرت کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ دنیا کا یہی منفی رویہ نشہ کرنے والے افراد کو معاشرے سے الگ رہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ نشہ کی علت میں مبتلا افراد اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔
جو لاشعوری طور نشہ کرنے، پھر Vicious Cycle میں پھنسے ہوتے ہیں اور وہ چاہ کر بھی خود نشہ نہیں چھوڑ سکتے اس کے لئے انہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
نشے کے مریض کو بھی باقی امراض کے شکار افراد کی طرح پیار، محبت، ہمدردی اور توجہ کے ساتھ ساتھ علاج کی ضرورت ہوتی ہے لیکن نشے کے مریض کے حصے میں صرف حقارت، طعن و تشنیع اورلوگوں کا ناروا سلوک ہی آتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا سب سے تاریک اور المنا ک پہلو یہ بھی ہے کہ اس عارضے کا علاج کرنے والے ماہرین اور معالجین یا تو اس کے بارے میں مکمل علم نہیں رکھتے یا علم ہونے کے باوجود علاج کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اگر مریض کا علاج ہی نہیں ہوگا تو مریض صحتیاب کیسے ہوگا؟ مزید دکھ کی بات یہ کہ دوبارہ نشہ کرنے کی صورت میں سارا الزام مریض پہ ڈال دیا جاتا ہے کہ مریض خود نشہ چھوڑنا ہی نہیں چاہتا ۔
ہمارے نام نہاد معالجین کے اس سفاک رویے کی وجہ سے مریض اور ان کے خاندان والوں کا علاج سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے اور مریض کی بحالی ناممکن ہو جاتی ہے۔
ہمیں بطور معاشرہ کچھ سنجیدہ عملی اقدامات لینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم مل کر اس دکھ سے نکلنے کی کوشش کر سکیں:
۱۔ سب سے پہلے تو ماہرین /معالجین کو اپنے پیشے سے ایماندار ہونا ہے۔ ایمانداری کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے پیشے کے بارے میں مکمل علم اور تجربہ رکھتے ہوں اور دوسری بات کہ وہ اپنے پیشے سے مخلص ہوں تا کہ جو بھی مریض اُن کے پاس آئیں وہ انہیں بہتریں علاج دے سکیں۔
۲۔ منشیات فروشی کی سخت سزا مقر ر ہونی چاہئے اور سزا پر عمل درآمد بھی ہونا چاہئے۔ ہمیں بھی Portugal Decriminalization Model کو لاگو کرنا چاہئے۔ اس کے مطابق نشہ کرنے والے سے منشیات بر آمد ہونے کی صورت میں سزا نہیں ملنی چاہئے بلکہ انہیں علاج گاہ میں بھیجا جانا چاہئے جبکہ منشیات فروشوں کو کڑی سزا ملنی چاہئے۔
۳۔ تعلیمی اداروں میں نشے کی بیماری کے بارے میں آگاہی کے لیئے Addiction Knowledge Hub ہونے چاہئے۔ جہاں طلباء و طالبات کے نشے/ نفسیاتی مسائل کے حل کیلئے فر ی کانسلنگ سیشن ہونے چاہئے۔تعلیمی اداروں کو طلباء و طالبات کو ڈگری ہاتھ میں تھما دینے کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کی مہارتیں بھی سکھانی چاہئے۔
۴۔ والدین کی آگاہی کے لئے بھی تعلیمی اداروں میں وقتاََ فوقتاََ لیکچرز منعقد کروانے چاہیے جس میں والدین کو اپنے بچوں کونشے سے بچانے کے لئے حفاظتی اقدامات، نشے کی ابتدائی علامات اور نشے کی بیماری کی صورت میں ان کے علاج کی طرف رہنمائی فراہم کی جانی چاہئے۔
۵۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ـ’’ نشہ ایک عارضہ ہے نا کہ اخلاقی کمزوری یا تربیت میں کمی۔ ‘‘ کی مہم چلانی چاہیئے تا کہ لوگ اس کو عارضہ سمجھیں اور اس کو چھپانے کی بجائے اس سے نکلنے کی طرف آسکیں۔
نشے سے بحالی کی طرف آنے والے لوگوں کو بھی مختلف پروگرامز میں مدعو کیا جانا چاہئے جہاں وہ (گمنامی کے ساتھ ) اپنی کامیابی کی کہانی سنائیں تاکہ نشہ کرنے والوں اور ان کے گھر والوں کیلئے ایک امید کی کرن جگا سکیں اور Stigma کو ختم کیا جا سکے۔
۶۔ حکومت کو ایسے ادارے بنانے چاہئے جہاں نشہ کرنے والے بے گھر یا غریب افراد کو پناہ کے ساتھ ساتھ مفت علاج فراہم کیا جائے۔ نشے سے بحالی میں آنے کے بعد انہیں زندگی گزارنے اور معاشرے کا فعال شہری بنانے کے لئے انہیں تعلیم سے آراستہ کیا جائے یا مختلف ہنر سکھائے جائیں ۔
۷۔ اگر نشہ کرنے والا کوئی غیر قانونی حرکت(چوری، توڑپھوڑ، جھگڑا، منشیات فروشی، نشہ استعمال کرنا وغیرہ) کرتا پکڑا جائے توعوام کو قانون ہاتھ میں لئے بغیر اسے ایسے اداروں کے حوالے کر دیا جائے جہاں اسے نا صرف نشے سے پاک رکھا جائے بلکہ بحالی کی طرف آنے میں رہنمائی اور مدد فراہم کی جائے۔
المختصر یہ کہ نشہ ایک ذہنی عارضہ ہے جس کی وجہ سے کرنے والے کے دماغ کی ساخت اور افعال میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا اپنی سوچ اور عمل پہ بالکل کنٹرول ختم ہوجاتا ہے اورایسی صورت حال میں مریض کچھ بھی کر سکتا ہے۔ لہذا اس عارضے کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے ہمیں مریض کو اس سے نکالنے کی اجتماعی کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہمارا معاشرہ اس ناسور سے پاک ہوسکے۔