غزہ پالیسی؛ کیا کملا ہیرس ریاست مشی گن میں ناراض مسلم ووٹرز کو منا پائیں گی
مشی گن: امریکی صدارتی الیکشن میں سوئنگ اسٹیٹ کی حیثیت رکھنے والی ریاست مشی گن میں عرب اور مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے مسلمان ووٹرز کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے جو صدارتی الیکشن کے مجموعی نتائج پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے ’’اے ایف پی‘‘ کے مطابق مشی گن میں جوبائیڈن کی اسرائیل کی حمایت پر مایوس ڈیموکریٹ کے مسلم ووٹرزنے نمائندہ خصوصی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کملا ہیرس کو مشی گن میں ڈیموکریٹ کی فتح کو برقرار رکھنے کے لیے سخت محنت کرنا ہوگی۔
یاد رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلم ممالک پر سفری پابندی، مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی حمایت اور دیگر متنازع اقدامات کے باعث مشی گن کے قصبے ڈیئربورن کے مسلم ووٹرز نے 2020 میں بائیڈن کی حمایت کی تھی۔
اس سے قبل 2016 کے صدارتی الیکشن میں مشی گن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو جیتوایا تھا۔ یہ ریپبلکن پارٹی کی 1988 کے بعد مشی گن میں پہلی فتح تھی جس میں قصبے ڈیئربورن کے مسلم ووٹرز کا کلیدی کردار تھا۔
اے ایف پی کے نمائندے نے امریکی صدر جوبائیڈن کے غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت پر اس بار مسلم ووٹرز کا رجحان معلوم کرنے کے لیے مشی گن میں ایک لاکھ 10 ہزار کی آبادی والے قصبے ڈیئربورن کا دورہ کیا جہاں اکثریت عرب نژاد امریکی رہتے ہیں۔
یہ خبر پڑھیں : اسرائیل کے حقِ دفاع کی حامی ہوں لیکن غزہ میں تباہی دل دہلا دینے والی ہے، کملا ہیرس
مقامی مسلم ووٹرز جنھوں نے گزشتہ الیکشن میں جوبائیڈن کو ووٹ دیا تھا، اے ایف پی کے نمائندے کو بتایا کہ فی الوقت ’دیکھو اور انتظار کرو‘ والا معاملہ ہے۔ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ڈیموکریٹ کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس کی غزہ پر کیا پالیسی ہے اور ان کے اختیارات کا وزن کتنا ہے۔
خیال رہے کہ جمعرات کو پارٹی کے کنونشن میں ڈیموکریٹک صدارتی نامزدگی کو قبول کرتے ہوئے کملا ہیرس نے اپنی تقریر میں غزہ میں جنگ بندی اور فلسطینیوں کو وقار، سلامتی، آزادی اور خود ارادیت کے اپنے حق کا احساس یقینی بنانے کا عہد کیا تھا۔
تاہم فلسطین کے حامی مندوبین میں اس بات پر غم و غصہ پایا گیا کہ کنونشن میں ان کے بطور اسپیکر شریک ہونے کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔
مسلم ویمن فار ہیرس والز نے کہا کہ ڈیموکریٹ کے اس فیصلے نے ایک “خوفناک پیغام” بھیجا ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ مہم سے اپنی حمایت ختم کر رہی ہے اور واپس لے رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : امریکی صدارتی انتخاب؛ کملا ہیرس کو ڈونلڈ ٹرمپ پر سبقت
مسلم اکثریتی قصبے ڈیئربورن کے میئر عبداللہ حمود نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا یہاں تقریباً 55 فیصد باشندے عرب نژاد ہیں اور غزہ کے متاثرین ہمارا خاندان اور ہمارے دوست ہیں۔
ملک کی سب سے بڑی مسجد اور مشرق وسطیٰ کی لاتعداد سپر مارکیٹوں، کھانے پینے کی اشیاء اور کافی شاپس کے گھر ڈیئربورن کو اسلامک سینٹر آف امریکا بھی کہا جاتا ہے۔
2018 میں جنوب مشرقی مشی گینڈرز نے راشدہ طلیب کو منتخب کیا جو کانگریس میں پہلی فلسطینی نژاد امریکی ہیں جب کہ 3 عرب امریکی میئر بھی حال ہی میں نواحی علاقوں سے منتخب ہوئے ہیں۔
اے ایف پی کے نمائندے نے یہاں صدارتی الیکشن سے متعلق یہ تاثر پایا کہ مسلم ووٹرز ’’2 برائیوں میں سے کم برائی ” کے کلیے پر ووٹ دینے سے تھک چکے ہیں اور اس کے بجائے وہ ایسے امیدواروں کو چاہتے ہیں جو غزہ میں مستقل جنگ بندی اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی کے خاتمے کے ان کے مطالبات کو پورا کرسکیں۔
واضح رہے کہ امریکی انتخابات میں 7 ریاستیں ایریزونا، جارجیا، مشی گن، نیواڈا، شمالی کیرولینا، پنسلوانیا اور وسکونسن کو سوئنگ اسٹیٹس کہا جاتا ہے جو کلی طور پر نہ تو ڈیموکریٹ اور نہ ریپبلکن کا گڑھ ہیں۔ ان ریاستوں میں دونوں جماعتیں فتح حاصل کرتی آئی ہیں اور کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہے۔