لوگ، جو بغیر بجلی کے زندگی بسر کرتے ہیں
پاکستان میں جس تیزی سے بجلی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ بہت جلد لوگ بجلی کے بغیر ہی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
پاکستانی قوم لالٹینیں بھی نہیں جلا سکتی کہ اس میں بھی مٹی کا تیل ڈالا جاتا ہے۔ پاکستان کے طبقہ اشرافیہ بالخصوص حکومتی پالیسی سازوںکی معلومات کے لئے عرض ہے کہ مٹی کا تیل بھی اُن پٹرولیم مصنوعات میں شامل ہے جس کی قیمتوں میں بجلی جیسی تیزی سے اضافہ کیا جا رہا ہے ۔
ایسے میں پاکستانی قوم کے پاس سوائے اندھیرے میں زندگی گزارنے کے،کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچا ۔ ایسے میں انھیں اپنے بزرگوں سے پوچھنا ہو گا کہ وہ کیسے بغیر بجلی وغیرہ کے زندگی گزارا کرتے تھے یا پھر انھیں دنیا میں ان لوگوں کو ڈھونڈنا ہو گا جو بغیر بجلی کے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان سے سیکھنا ہوگا ، ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا ہو گا ۔
ہم قارئین کی سہولت کے لئے ایسے ہی ایک ’’ قبیلہ ‘‘ کا اتا پتا بتاتے ہیں جو بغیر بجلی زندگی بسر کر رہا ہے ۔ یہ محض تین انسانوں پر مشتمل ایک اطالوی ’’ قبیلہ ‘‘ ہے ۔ اس کے بانی ’ فیبریزیو کاردینالی‘ نامی ایک بزرگ ہیں ۔
ان کی عمر 72برس ہے ۔ نصف صدی سے زائد عرصہ سے وہ بغیر بجلی کے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ ان کی زندگی میں بجلی کا استعمال صفر ہے ، بالکل صفر ۔ انھیں شہر کی روشنیوں میں رہنے کی ذرا سی بھی خواہش نہیں ہے ۔
یہ یورپ کے ان چند لوگوں میں سے ہیں جنھیں کوئی فکر نہیں کہ بجلی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں یا نہیں ۔ ورنہ بجلی ، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے انسانوں کو اچھا خاصا ذہنی مریض بنا دیا ہے ۔
لمبی سفید داڑھی والے’ فیبریزیو کاردینالی ‘ اٹلی کے مشرقی پہاڑی علاقے میں پتھروں سے تعمیر شدہ ایک گھر میں رہتے ہیں ۔ جوانی میں پیراملٹری پولیس میں ملازمت کرتے تھے ۔ اب انھوں نے اپنے گھر کو پورے شعور کے ساتھ بجلی اور گیس جیسی سہولتوں سے ’ پاک ‘ رکھا ۔ ان کے گھر میں پانی کے پائپ بھی نہیں ہیں ۔
’ فیبریزیو کار دینالی ‘ کے گھر کے باہر زیتون کے درخت ہیں ۔ اس گھر میں رہنے والے دیگر دو افراد میں ایک خاتون ہے اور دوسرا مرد ۔ خاتون کا نام ’ ایگنیس ‘ ہے ۔
اس کی عمر پینتیس برس ہے ، وہ کہتی ہے کہ ’’ میں یہاں آزادی سے لطف اندوز ہوتی ہوں‘‘۔ وہ دو سال قبل ہی یہاں منتقل ہوئی تھی جبکہ مرد ’ اینڈریا ‘ ہے ، وہ چھیالیس برس کا ہے ۔ وہ ہر ہفتے کے اختتام پر، پچاس کلومیٹر دور ’ میکریتا ‘ جاتا ہے ، جہاں اس کی والدہ رہتی ہیں ۔
تین افراد کا یہ قبیلہ آپس میں لڑتا ہے نہ جھگڑتا ہے ، حتیٰ کہ یہ لوگ ایک دوسرے سے اختلاف کرنے سے بھی گریزکرتے ہیں ۔ لکڑیوں کی آگ پر کھانا پکاتے ہیں ، اور سردیوں میں اس آگ سے حرارت حاصل کرتے ہیں ۔ اور گرمیوں میں اپنے گھر کے باہر خیمے گاڑ لیتے ہیں اور خراٹے لیتے ہوئے سوئے رہتے ہیں ۔
یہ لوگ اندھیری شب میں لیمپ کی روشنی میں کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ اس لیمپ میں کھانے کا تیل ڈالتے ہیں جو ہمسائے انھیں بطور عطیہ فراہم کرتے ہیں ۔
یہ تینوں افراد سبزیاں اور پھل کاشت کرتے ہیں ، زیتون بھی کاشت کرتے ہیں تاکہ اس کا تیل حاصل کریں ۔ ان کے ہاں شہد کی مکھیاں بھی ہیں ۔ ایک مقامی دکان دار انھیں دالیں ، اناج ، گندم وغیرہ قیمتاً فراہم کرتا ہے ۔ یہ لوگ گندم پیستے ہیں اور پھر اس کی روٹی کھاتے ہیں ۔ ان کے پاس جو پھل ، سبزیاں ، زیتون اور شہد وغیرہ بچ جاتا ہے ، اسے فروخت کر دیا جاتا ہے ۔
’ فیبریزیو کار دینالی ‘ کہتے ہیں : ’’ دنیا جس طرف جا رہی تھی ، مجھے اس انداز سے جینے میںکوئی دلچسپی نہیں تھی ۔
چنانچہ میں نے سب کچھ چھوڑ دیا، اپنا خاندان ، یونیورسٹی ، دوست احباب اور اپنی سپورٹس ٹیم ۔ اور بالکل ایک مختلف راستے کی طرف چل نکلا ۔ جب ’ فیبریزیو کاردینالی ‘ یہ باتیں کر رہے تھے ، وہ اپنے کچن میں بیٹھے تھے ۔ انھوں نے ایک دھاری دار ٹراؤزر پہن رکھا تھا جس پر جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے ۔ وہ کہتے ہیں:
’’ زندگی میں کسی چیز کو چھوڑ دینا کوئی اذیت پسندی نہیں ہے ۔ اگر آپ کچھ چھوڑتے ہیں تو ممکن ہے کہ آپ کوئی دوسری زیادہ اہم چیز حاصل کرنا چاہتے ہوں ۔ ‘‘ فیبریزیو کاردینالی پہلے پہل تنہا ہی زندگی گزارتے رہے ہیں ۔ تاہم اب ان کے گھر میں مزید دو افراد کے علاوہ چند مرغیاں اور ایک بلی بھی ہے ۔ وہ انھیں ایک قبیلہ کا نام دیتے ہیں ۔
جب لوگ اس قبیلے سے ملنے کے لئے جاتے ہیں تو انھیں سب سے پہلے قریبی قصبے کے لوگوں سے رہنمائی لینا پڑتی ہے ۔ وہ ایک کچی اور تنگ پگڈنڈی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے آغاز میں بلوط کا ایک درخت کھڑا ہے ، جس پر مختلف رنگوں کا ایک پرچم لہرا ہے ، جو امن کی علامت ہے ۔
بعض لوگ فیبریزیو کاردینالی کو ’ تارک الدنیا ‘ قرار دیتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ ’ تارک الدنیا ‘ نہیں ہیں ۔ ’’ میرا خیال ہے کہ چھوٹے علاقوں میں زندگی گزارنا زیادہ بہتر ہوتا ہے ۔‘‘ وہ جس فرد سے ملتے ہیں ، اسے سب سے پہلے نصیحت کرتے ہیں: ’’ میرے جیسی زندگی گزارو اور یہ سمارٹ فون اٹھا کر دور پھینک دو ‘‘۔
ایسا نہیں ہے کہ کاردینالی جنگل کے عین درمیان میں ، زیتون کے درختوں میں گھرے اپنے گھر ہی میں رہتے ہوں ۔ وہ بعض اوقات دوستوں سے ملنے کے لئے چھوٹے چھوٹے سفر کرتے ہیں ۔ جب انھیں اپنے کاشت کردہ زیتون کا تیل نکلوانا ہوتا ہے تو وہ قریبی قصبے میں جاتے ہیں ۔
بعض اوقات وہ بغیر کسی کام کے نزدیکی قصبے میں جاتے ہیں ، وہاں کے مقامی افراد کے ساتھ بیٹھ کر کافی وغیرہ پیتے ہیں اور پھر واپس اپنے گھر پہنچ جاتے ہیں ۔ اسی طرح انھیں ڈاکٹر کے پاس بھی جانے کے لئے چھوٹا بڑا سفر کرنا پڑتا ہے ۔ انھوں نے بتایا : ’’ میں اس انداز میں 51 سال سے زائد عرصہ سے زندگی گزار کر رہا ہوں ۔ مجھے کبھی اپنے فیصلے پر غلطی کا احساس نہیں ہوا ۔ یقیناً اس زندگی میں کچھ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔‘‘
’ فیبریزیو کاردینالی‘ ، ’ ایگنیس ‘ اور ’ اینڈریا ‘ اس انداز میں فطری زندگی گزارنے والے اس اعتبار سے انوکھے لوگ ہیں کہ وہ تمام تر سہولتیں حاصل ہونے کے باوجود ، ان سے الگ تھلگ ہو گئے ہیں ۔
اور ایک ایسا طرز زندگی اختیار کر لیا جو انسانی صحت کے لئے زیادہ مفید ہے ۔ مانا کہ جدید ٹیکنالوجی اور مشینوں نے انسانی زندگی میں سہولت پیدا کی ہے ، ہمیں کم وقت میں زیادہ مادی فوائد فراہم کیے ہیں تاہم انسانی صحت کو بھی متاثر کیا ہے ۔
مشینوں نے انسانوں کو تن آسان بنایا ۔ یہی تن آسانی بہت سے امراض کا سبب بنی ۔ ذرا ! موبائل اور ذہنی صحت کے باہمی تعلقات پر غور کر لیجئے، ایسے میں ’ فیبریزیو کاردینالی‘ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے موبائل فون کو اٹھا کر پھینکنے کو جی چاہے گا ۔