مکڑی کے جالے اور ریشمی تار اعصاب کی مرمت کرسکتے ہیں
آکسفورڈ: متاثرہ رگوں اور باریک اعصاب کی مرمت ایک بہت مشکل عمل ہوتا ہے۔ اب فطرت میں موجود ایک مکڑی کے جال کو قدرتی ریشمی دھاگوں میں ملاکر اس کام کو آسان بنایا جاسکتا ہے۔
ماہرین نے اس ضمن میں گولڈن آرب مکڑی اور عام ریشمی کیڑوں سے مدد لی ہے۔ اگرچہ روایتی طریقوں سے ہم کم وقفے تک کی اعصاب کی مرمت کرسکتے ہیں لیکن دو طرح کے قدرتی ریشوں کے ملاپ سے طویل فاصلوں تک کے اعصاب اور نسیجوں کی مرمت ممکن ہے۔ اس طرح اعصاب میں پھر سے نشوونما (ری جنریشن) شروع ہوجاتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ کھوپڑی میں موجود پیریفیرل اعصاب سرگرم ہوکر پورے جسم کو کنٹرول کرتے ہیں اور بقیہ بیرونی اعضا کا احساس دلاتے ہیں۔ اگریہ متاثر ہوجائے تو دماغ اور پٹھوں کا رابطہ ٹوٹ جاتا ہے اور دماغ کے احکامات ہاتھ یا پیر تک نہیں پہنچ پاتے۔
ان اعصاب کی مرمت کے لیے جو روایتی طریقے استعمال کئے جارہے ہیں ان میں آٹوگرافٹ کا عمل مشہور ہے جہاں سرجن حضرات متاثرہ عصبیوں کو بدن کے دیگر حصوں سے بدل دیتےہیں۔ یہ پیوند حساس والے (عصب) یا نرو سے لیا جاتا ہے۔ لیکن کئی مرتبہ کام کرتا ہے اور کئی مرتبہ اس میں ناکامی بھی ہوجاتی ہے، دوم عصبیوں کی پیوندکاری سے غیرمعمولی حساسیت بھی بڑھ جاتی ہے۔
اعصاب اور سیجنوں کے دونوں کناروں پر ٹیوب نما ساختیں ہوتی ہیں جنہیں نروگائیڈ کہا جاتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے اگر ان دونوں کے درمیان فاصلہ کام ہو تو کامیابی کا امکان بڑھ جاتا ہے یعنی مشکل سے 3 سینٹی میٹر کا وقفہ عبور کیا جاسکتا ہے۔
اب جامعہ آکسفورڈ اور میڈیکل یونیورسٹی آف ویانا نے مشترکہ طور پر مکڑی کے بنے ہوئے تاروں اور قدرتی ریشم سے ٹیوب نما ساخت بنائی ہیں۔ ان کی مدد سے اعصاب میں طویل گیپ کو پاٹا جاسکتا ہے اور ان کےدرمیان رابطہ بن جاتا ہے۔ اس کے بعد عضو ، بافت یا اعصاب ازخود جڑتے ہیں اور ریشمی تار گھل کر ختم ہوجاتا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ قدرت میں پائے جانے والے دونوں اقسام کے تار قدرتی طور پر لچکدار اور مضبوط ہیں۔ یہ بدن کے اندر جاکر اس کا جزو بننے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جانوروں کے ماڈل پر 10 ملی میٹر تک متاثرہ حصے کو ان سے جوڑنے کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔