غزہ میں ناکامی کے بعد اسرائیلی وزیراعظم کا جنگ ختم کرنے کا اشارہ
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ حماس کے خلاف غزہ جنگ کا آخری مرحلہ قریب ہے۔
غزہ میں حماس کے ہاتھوں سیکڑوں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کے نتیجے میں باالآخر نیتن یاہو حکومت نے غزہ جنگ سے جان چھڑانے کا منصوبہ بنالیا۔ تاہم نیتن یاہو کو اس مشکل کا سامنا ہے کہ جنگ کے خاتمے کے اعلان کو اپنے عوام کے سامنے فتح بناکر کیسے پیش کیا جائے۔
غزہ جنگ پر نیتن یاہو کو نہ صرف دنیا بھر میں بلکہ خود اسرائیل کے اندر شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ اسرائیل کی خوفناک بمباری میں بچوں سمیت 38 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت پر دنیا بھر میں احتجاج جاری ہے اور یہود مخالف جذبات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
اسرائیل نے برسوں سے مغربی دنیا میں اپنا چہرہ خوش نما بنانے کی کوشش کی تھی اور anti semitism یہود مخالف قوانین کے ذریعے اسرائیل کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچل کر ایک خوف پیدا کیا گیا تھا وہ سارا دور ہوچکا ہے اور لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل کر اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں۔
اسرائیل کو سفارتی محاذوں پر بھی ناکامیوں کا سامنا ہے اور متعدد ممالک فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔
ایسے میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسے یقین ہے کہ غزہ میں اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے خلاف جنگ کا اہم مرحلہ جلد ہی اختتام پذیر ہو جائے گا۔
اس نے یروشلم میں نیشنل ڈیفنس اکیڈمی کے کیڈٹس کے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ہم حماس کی فوج کو ختم کرنے کے مرحلے کے اختتام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ہم ان کی باقیات سے لڑتے رہیں گے۔
اسرائیلی چینل 13 نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 10 دن کے اندر اندر جنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا جائے گا اور اگلے مرحلے میں اسرائیلی فوج شمال میں لبنان کی سرحدی محاذ پر اپنی توجہ مرکوز کرے گی جہاں حزب اللہ کے ساتھ جھڑپیں جاری ہیں۔
دوسری جانب ٹائمز آف اسرائیل اور ہارٹز کا کہنا ہے کہ حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل کا اپنے مقاصد حاصل کرنا تو دور کی بات وہ ان کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا اور یرغمالی تاحال حماس کی قید میں ہیں۔
اسرائیل اس جنگ کے اختتام پر “مکمل فتح” کا دعوی کیسے کرے گا جبکہ نیتن یاہو نے حماس کی حکومتی و فوجی قوت کے خاتمے، تمام یرغمالیوں کی واپسی، اور اسرائیل کو غزہ سے ہمیشہ ہمیشہ کےلیے محفوظ کرنے کے جو بلند و بانگ دعوے و وعدے کیے تھے، وہ تاحال پورے نہ ہوئے۔
اسرائیلی میڈیا نے اعتراف کیا ہے کہ حماس کو بھاری نقصان ضرور پہنچا ہے لیکن شکست نہیں ہوئی۔ یحییٰ سنور اور محمد ضیف سمیت حماس کے زیادہ تر سینئر رہنما حیات ہیں اور جنوبی غزہ سے گروپ کی کمان کررہے ہیں۔ غزہ میں حماس وہ واحد طاقت ہے جو اسرائیل کے پیچھے ہٹتے ہی دوبارہ حکومت سنبھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ غزہ میں حماس اب بھی سرگرم ہے اور گوریلا انداز میں کام کر رہی ہے۔
دوسری طرف حماس ہے جس پر امریکہ، قطر اور مصر مل کر 31 مئی سے شدید دباؤ ڈال رہے ہیں جب سے اس نے امریکی صدر جوبائیڈن کی ثالثی میں ہونے والی اسرائیل سے عارضی جنگ بندی معاہدے کی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔ حماس نے کسی دباؤ کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے اور اس کا کہنا ہے کہ جنگ بندی عارضی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ مصر اور قطر نے بھی حماس کے رہنماؤں پر پابندیوں اور گرفتاریوں کی دھمکیاں دیں لیکن حماس کسی سے مرعوب نہیں ہوئی۔
ادھر اگر اسرائیل کی شمال میں حزب اللہ سے باقاعدہ جنگ چھڑ گئی تو اسے نئی مشکلات کا سامنا ہوگا۔
ایسے میں غزہ جنگ ختم کرنے کے لیے نیتن یاہو کےلیے اہم ترین سوال یہ ہے کہ اپنے عوام کو فتح کا یقین کیسے دلایا جائے کہ کیسے اس بات پر قائل کیا جائے کہ اسرائیل غزہ جنگ میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔